کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ Transgender

Alfazl 14 Dec 2024

سوال: کینیڈا ہی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ مغرب میں ٹرانسجینڈر کے حوالے سے مذاہب کے خلاف پراپیگنڈا کر کے نوجوان نسل کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قرآن کریم نے اس تیسری قسم کی جنس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور اسلام نے ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا۔ اس قسم کے اعتراضات کا کافی و شافی جواب کس طرح دیا جائے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۰؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اصل بات یہ ہے کہ تخلیق آدم سے لےکر قیامت تک شیطان نے آدم کی اولاد کو بہکانے اور اسے خدا تعالیٰ کے راستہ سے برگشتہ کرنے کا جو بیڑااٹھا رکھا ہے، اس کے تحت شیطان مختلف طریقوں سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان شیطانی حملوں سے باخبر رکھنے کے لیے ان الفاظ میں انذار فرمایا ہے۔ لَعَنَهُ اللّٰهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۔ وَّلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّنْ دُونِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا۔ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيْهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُوْرًا۔ أُولٰٓئِكَ مَأْوٰهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُوْنَ عَنْهَا مَحِيصًا۔(سورۃ النساء:۱۱۹ تا ۱۲۲)یعنی (اس شیطان کو) جسے اللہ نے (اپنی جناب سے) دُور کر دیا ہے اور (جس نے یہ) کہا تھا کہ میں تیرے بندوں سے ضرور ہی ایک مقررہ حصہ لوں گا۔اور انہیں لازماًگمراہ کروں گا اور یقیناً (بڑی بڑی) امیدیں بھی دلاؤں گا اور ان سے باصرار یہ خواہش کروں گا کہ وہ چوپایوں کے کان کاٹیں۔ اسی طرح خواہش کروں گا کہ وہ مخلوق خدا میں تبدیلی کریں اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے، تو (سمجھو کہ) وہ (کھلے) کھلے نقصان میں پڑ گیا۔ وہ (شیطان) انہیں وعدے دیتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے اور شیطان ان سے بجز ظاہر فریب باتوں کے (کسی امر کا) وعدہ نہیں کرتا۔ ان لوگوں کا ٹھکانا تو جہنم ہے اور وہ اس سے بھاگنے کی جگہ کہیں نہیں پائیں گے۔

اس آخری زمانہ میں شیطان نے دجالی قوتوں کا روپ دھار کر انسانوں کو گمراہ کرنے کا طریق اختیار کیا ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس سے ہر نبی نے اپنے متبعین کو ڈرایا اور آنحضورﷺ نے اس کے بارے میں بہت زیادہ انذار فرمایا۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن بَاب ذِكْرِ الدَّجَّالِ) اور ان شیطانی اور دجالی طاقتوں کے مقابلے کے لیے اپنے روحانی فرزند اور غلام صادق مسیح موعود و مہدی معہودؑ کی بعثت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ (صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن بَاب قَوْلُهُ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ)جس نے اپنی خداداد تائید و نصرت کے ذریعہ دلائل و براہین کے ساتھ ان دجالی قوتوں کا مقابلہ کر کے اسے انشاء اللہ ناکام و نامراد کرنا ہے۔

پس آنحضورﷺ کے عشق اور آپؐ کی کامل اتباع کے نتیجہ میں مسیح محمدیؑ کے مقام پر فائز ہونے والے اس جری اللہ فی حلل الانبیاء نے شیطانی اوردجالی طاقتوں کے مقابلے کے لیے ہمیں جو دعا اور قلمی جہاد کے ہتھیار عطا فرمائے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ان ہتھیاروں سے پوری طرح لیس کر کے ان شیطانی اور دجالی قوتوں کا مقابلہ کر کے خود کو اور اپنی آئندہ نسل کو ان کے حملوں سے محفوظ کریں۔ لیکن اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم آپؑ کی دی ہوئی تعلیمات کو حرز جان بنا کر ان پر عمل پیرا ہوں۔

باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ Transgenderیا خنثیٰ کا ذکرقرآن کریم میں نہیں آیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تخلیق کی یہ قسم بھی دراصل الذَّکَرَ وَالۡاُنۡثٰۤی یعنی نر و مادہ کی ہی ایک بیمار شکل ہے۔ اور جس طرح قرآن کریم نے مختلف بیماریوں میں مبتلا مرد و خواتین مثلاً ہونٹ کٹے ہوئے، یا آنکھ سے محروم یا ٹانگوں سے اپاہج انسان کا الگ ذکر نہیں فرمایا، اسی طرح خنثیٰ کا بھی ذکر نہیں کیا جو کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں:فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہم اس خدا کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے نر اور مادہ پیدا کیا ہے اور جن سے دنیا میں آئندہ نسل ترقی کر تی ہے یعنی جس طرح دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ دن کی بیداری طاری رہتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ رات کی خوابیدگی غالب رہتی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں رجولیت کا مادہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں نسوانیت کا مادہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو فیوض پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ جو لوگ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذَکر ہوتے ہیں اور جو استفاضہ کی قوت اپنے (اندر) رکھتے ہیں وہ انثیٰ ہوتے ہیں اور جو لوگ نہ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں نہ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ خنثیٰ ہوتے ہیں۔ ان سے دنیا میں کبھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ فرماتا ہےوَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی۔ ہم نر و مادہ کی پیدائش کو بھی شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں یعنی نر میں افاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو بچہ دیتا ہے اور مادہ میں استفاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ بچہ کو اس سے لیتی اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ یہی دو قوتیں ہیں جن کے ملنے سے دنیا میں اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اگر نر اور مادہ آپس میں نہ ملیں تو نسل انسانی کا سلسلہ بالکل منقطع ہو جائے۔

بعض نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی یعنی خدا تعالیٰ نے ذَکر اور انثیٰ کو پیدا کیا ہے مگر اس نے خنثیٰ کا ذکر نہیں کیا حالانکہ یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے۔ مجھے علمی کتابوں میں اس قسم کا اعتراض پڑھ کر حیرت آئی ہے اور پھر اور زیادہ حیرت مجھے اس بات پر آئی ہے کہ مفسرین نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے اور جواب یہ دیا ہے کہ جو ہمارے نزدیک خنثیٰ ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ بہر حال یا ذَکر ہے یا انثیٰ ہے اس سے باہر نہیں۔ یہ بھی ایک مجبوری کا جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خنثیٰ کوئی پیدائش نہیں بلکہ وہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے… اگر ماں باپ اپنے اندر کوئی خرابی پیدا کر لیتے ہیں اور ان کی صحت میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے ذَکر یا انثیٰ کے خنثیٰ پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ بھی ایک پیدائش ہے بلکہ صرف یہ کہا جائے گا کہ یہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے جو اس رنگ میں ظاہر ہو گیا۔ خنثیٰ کو بھی پیدائش قرار دینا ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ خد اتعالیٰ آنکھیں دیتا ہے تو دوسرا جواب میں کہے کہ دنیا میں اندھے بھی تو ہوتے ہیں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات کیسی بیہودہ ہے اگر کوئی اندھا ہوا ہے تو اپنے ماں باپ کی کسی نادانی یا غفلت یا بیماری کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ نے بہرحال ہر انسان کو آنکھوں والا بنایا ہے کسی کا اندھا پیدا ہونا ایک بگاڑ اور خرابی ہے نئی پیدائش نہیں ہے۔ مجھے تو حیرت آتی ہےکہ ہمارے مفسرین نے اس بحث کو اٹھایا ہی کیوں کہ خدا تعالیٰ نے ذَکراور انثیٰ کا ہی کیوں ذکر کیا ہے خنثیٰ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ خنثیٰ ہونا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی کا ناک کٹا ہوا ہو یا کسی کی آنکھ ماری ہوئی ہو یا کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ سب انسانی پیدائش کے مختلف بگاڑ ہیں۔ کسی کی آنکھیں نہیں ہوتیں، کسی کے ہاتھ نہیں ہوتے، کسی کی زبان نہیں ہوتی، کسی کی انگلیاں کم و بیش ہوتی ہیں۔ اگر ان میں سے ہر چیز کو پیدائش کی ایک نئی قسم قرار دےدیا جائے تو پھر تو ہزار ہا اس قسم کی پیدائشیں نکل آئیں گی۔ دنیا میں ہر شخص کی خدا تعالیٰ نے دو ٹانگیں پیدا کی ہیں لیکن بعض دفعہ ماں باپ کی بے احتیاطی یا کسی رحمی نقص کی وجہ سے ایسا بچہ پید ا ہو جاتا ہے جس کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو الگ الگ جسم عطا کیا ہے لیکن بعض دفعہ اس قسم کے جڑے ہوئے بچے پید اہو جاتے ہیں جن کو آپریشن کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ تو آپریشن کے ذریعہ بھی ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا بظاہر دو دھڑ آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دونوں کا جگر ایک ہوتا ہے یا دل ایک ہوتا ہے یا معدہ ایک ہوتا ہے یا تلی ایک ہوتی ہے اور وہ ساری عمر اسی طرح جڑے جڑے گزار دیتے ہیں۔ پس خالی خنثیٰ کا ذکر ہی نہیں پھر تو انہیں اس قسم کے تمام بگاڑ پیش کرنے چاہیے تھے اور کہنا چاہیے تھا کہ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو بچے آپس میں بالکل جڑے ہوئے ہوتے اور پھر ان کو الگ الگ کرنا پڑتا ہے۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دونوں کا ایک ہی جگر، ایک ہی قلب، ایک ہی پھیپھڑا اور ایک ہی معدہ ہوتاہے اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں بچہ تو ہوتا ہے مگر اس کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو کی بجائے تین ٹانگیں بن جاتی ہیں، حالانکہ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو پیدائش کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں ان کو پیش کر کے قرآن مجید پر یہ اعتراض کرنا کہ اس نے صرف ذَکراور انثیٰ کا نام لیا ہے خنثیٰ کا نام نہیں لیا معترضین کی نادانی اور حماقت کا ثبوت ہے۔ اور مفسرین کو چاہیے تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے، کہتے کہ یہ اعتراض کسی احمق کی زبان سے نکلا ہے۔ دنیا میں دو ہی پیدائشیں ہوتی ہیں، ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں ذَکرانیت ہوتی ہے اور ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں نسوانیت ہوتی ہے یہ دونوں وجود آپس میں ملتے ہیں تب ایک تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں۔(تفسیر کبیر جلد ۱۳ صفحہ ۷۹تا ۸۱، مطبوعہ یوکے ۲۰۲۳ء)

پس Transgenderکا لفظ پیدائشی جنسی بیماری میں مبتلا افراد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو اپنی پیدائشی جنس کے برعکس جنس والے جذبات یا کسی اور قسم کی جنس کے جذبات اپنے ذہن میں محسوس کرتا ہو۔ یہ دوسری قسم کی بیماری اگر معاشرتی بے راہ رویوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سوچ اور دماغی خرابی کے نتیجہ میں انسان کے ذہن میں آتی ہےتو یہ بھی غلط ہے اور پھر ایسی سوچ والا شخص جب عملاً اپنی جنس تبدیل کرنا چاہتا ہے تو یہ سب امور اسی انذار کے تحت آئیں گے، جس کا اوپر قرآن کریم کے حوالے سے ذکرکیا گیا ہے۔ لہٰذا اس قسم کی سوچ اور اس کے نتیجہ میں ایسا عمل مخلوق خدا میں تبدیلی کے مترادف ہے جس کی اسلام نے ہرگز اجازت نہیں دی۔

Transgenderچونکہ ایک قسم کی پیدائشی جنسی بیماری یا ذہنی جنسی بیماری ہے، لہٰذا جس طرح ہم دوسری بیماریوں کا علاج کرواتے ہیں،اسی طرح اس بیماری کا بھی علاج ہونا چاہیے۔ نیز اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو ہم اس طرح بُرا نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے سے دُور کرنے کے لیے دھتکار دیں، اور ان سے نفرت کریں۔بلکہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سےہر معاشرہ اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی جائز ضروریات کو پورا کرے، اگر ان کا علاج ہو سکتا ہو تو انہیں علاج کی سہولت بہم پہنچائے۔ اس بیماری کی وجہ سے انہیں ہر اس بُرائی میں مبتلا ہونے سے بچانے کی کوشش کرے، جس میں اس بیماری کے شکار افراد کا شیطان کے بہکاوے میں آ کر مبتلا ہونے کا امکان ہو۔ اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدامات کرے۔